Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

ہیلو سویٹ ہارٹ! کیسا لگا سرپرائز؟“ دوسری طرف سے کال ریسیو ہوتے ہی وہ چہکا۔
”اٹس سو ورنڈر فل! میں تو بہت خوش ہوں آج ،آنٹی مجھے انگوٹھی پہنا کر گئی ہیں ،مٹھائی بھی کھلائی ہے۔“ دوسری جانب عادلہ اپنی انگلی میں پہنائی گئی انگوٹھی کو چومتی ہوئی سرشار لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
”اوہ… آئی سی۔ اب تم کب آ رہی ہو میرا منہ میٹھا کرنے کیلئے۔
”کیا مطلب ہے؟“ اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔
”بہت دن ہو گئے ہیں ،ہمیں ملے ہوئے ،کل آ جاؤ۔“
”سوری شیری! میں اب تمہاری باتوں میں آنے والی نہیں ہوں۔“ وہ بے حد سنجیدہ و پراعتماد لہجے میں گویا ہوئی۔
”کیا تم میری بات سے انکار کرو گی ،بات نہیں مانو گی؟“ وہ خونخوار انداز میں غرایا تھا ،دوسری طرف سیل فون کان سے لگائے عادلہ خوف سے کانپ اٹھی تھی۔


”پلیز شیری! سمجھنے کی کوشش کرو۔“
”گو ٹو ہیل… پھر تم نہیں آؤ گی کل…؟“ اس کا انداز پہلے سے زیادہ سخت و پتھریلا ہو گیا تھا۔
”میں کس طرح سمجھاؤں تمہیں ،پہلے ممی کی اجازت تھی مگر اب وہ بالکل بدل گئی ہیں ،وہ مجھے اب تم سے تنہائی میں ملنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گی۔“ وہ اسے سمجھاتے ہوئے رو پڑی تھی۔
”مجھے پروا نہیں ہے کسی کی۔
”شیری کیا ہو گیا ہے تمہیں؟“
”تم آ رہی ہو یا نہیں ،صرف کنفرم کرو۔“ وہ سخت بے حس بنا ہوا تھا۔
”اگر تم نہیں آئیں تو میں منگنی ختم کروا دوں گا اور تمہاری ساری تصویریں اور ویڈیوز فیاض انکل اور دادی…“
”پلیز ایسا مت کرنا میں کل آ جاؤں گی۔“
”جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے۔“ اس کی ہنسی مکروہ تھی۔
###
”چائے بنا رہی ہو یا پائے؟ مجھے دیر ہو رہی ہے میٹنگ ہے میری۔“ وہ کف لنگ لگاتا ہوا اس سے آ کر کچن میں بولا تھا۔
”ارے آپ نے چائے کا منع کر دیا تھا ،میں دادی کیلئے دلیہ تیار کرنے لگ گئی اچھا ابھی دو منٹ میں بنا دیتی ہوں۔“ وہ اس کو سر پر کھڑے دیکھ کر حسب عادت گھبرا کر کہہ اٹھی۔
”رہنے دو ،دیر ہو رہی ہے آکر پیوں گا ،تم ذرا یہ کالر کا بٹن بند کر دو مجھ سے بند نہیں ہو رہا ہے۔
“ وہ قریب آ کر بولا۔ اس کی نگاہوں کی تپش ،ملبوس سے اٹھتی دلآویز مہک پری کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگی تھیں۔ ہاتھ بے جان سے ہو گئے تھے۔
”تم پھر مجھ پر یعنی میری نیت پر شک کر رہی ہو؟“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تھا۔
”نہیں… ایسی بات… نہیں ہے…“ وہ دور ہو کر پھر قریب ہوئی تھی اور اس کے کالر کی طرف بڑھتے ہاتھوں میں پھر لرزش سی پیدا ہو گئی تھی۔
”کانپ کیوں رہی ہو ڈر رہی ہو مجھ سے؟“ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھوں کو تھام لیا تھا۔ کچھ شرافت کے موڈ میں تھا یا اس کی سفید پڑتی رنگ پر ترس آ گیا تھا جو بہت آہستگی سے اس کا ہاتھ چھوڑ کر خود ہی کالر کا بٹن لگا لیا تھا وہ نگاہیں جھکائے کھڑی تھی۔
”دیکھو مجھے ایسی بزدل اور اعتماد سے محروم لڑکیاں کبی بھی پسند نہیں رہی ہیں ،اگر میری گڈ بک میں اپنا نام دیکھنا چاہتی ہو تو بہادر بنو ،اعتماد و حوصلہ پیدا کرو اپنے اندر۔
“ لیمن اور وائٹ جارجٹ کے سوٹ میں وہ دل میں اترتی جا رہی تھی ،شاید وہ نہا کر بال سلجھا کر یہاں آ گئی تھی۔ سیاہ گھنے بال کچھ شانوں پر بکھرے ہوئے تھے اور کچھ پشت پر پڑے تھے اور اس کے حسن کو مزید نکھار رہے تھے۔ وہ بے اختیار آگے بڑھا تھا اور پشت پر پھیلے بالوں کو ہاتھ میں لے کر لبوں تک لے گیا تھا صرف ایک لمحے میں یہ ہوا تھا اور دوسرے لمحے وہ تیزی سے وہاں نکل گیا تھا ،وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔
###
صباحت نے بے نیازی سے نیم دراز فیاض کو دیکھا جو ان کی موجودگی کو نظر انداز کئے بڑے انہماک سے ٹی وی پر کوئی ٹاک شو دیکھ رہے تھے ،وہ ان کے قریب بیٹھ کر استفسار کرنے لگیں۔
”کیا غلطی ہوئی ہے مجھ سے فیاض! آپ کتنے دنوں سے مجھے سے ڈھنگ سے بات کر رہے ہیں ،میری موجودگی میں بھی آپ چپ رہتے ہیں۔“
”بات کرتا تو ہوں اور کس طرح بات کروں بتاؤ مجھے؟“ انہوں نے ان کی طرف دیکھے بغیر ہی لٹھ مار انداز میں جواب دیا۔
”پرسوں بھی آپ مجھے گھر میں ہی چھوڑ گئے پری کی منگنی کے موقع پر۔“
”تم سے کہا تو تھا اب تم نہیں مانی تو تمہارے پاؤں پکڑ کر کہتا؟“
”اگر میری جگہ مثنیٰ ہوتی پھر بھی آپ کا یہی رویہ ہوتا؟“
”کیا…“ انہوں نے شدید غصے میں ہاتھ میں پکڑا ریموٹ پھینکا تھا۔
”مثنیٰ… مثنیٰ… مثنیٰ… گئی کب ہے یہاں سے؟ تم نے اسے جانے ہی کہاں دیا ہے نہ اس گھر سے‘ نہ میرے دل سے اور نہ میری یادوں سے ،چوبیس گھنٹوں میں چار سو بار تم یہ نام لیتی ہو نہ خود بھولتی ہو اور نہ مجھے بھولنے دیتی ہو،آخر تم کیسی عورت؟“ صباحت ہک دک کھڑی ان کی اشتعال انگیزی دیکھ رہی تھیں۔
”مجھ سے شکوہ کرتی ہو ساتھ نہ لے جانے کا لیکن اپنے رویئے پر کبھی غور کیا ہے؟ نہ تم کبھی پری کو ماں کا پیار دے سکیں اور نہ کبھی بیوی بن کر میرے دل سے مثنیٰ کا نام مٹانے کی سعی کی۔“
”کیا وہ نام آپ مجھے مٹانے دے فیاض!“
”جب وہ مجھے چھوڑ کر گئی تھی تب میں شکستہ و کمزور ہو گیا تھا ،تم چاہتیں تو آسانی سے مجھے اپنا بنا سکتی تھیں ،پری کو ماں کا پیار دے کر مجھ کو بے مول خرید سکتی تھیں مگر تم میرے مخالف سمت چلتی رہیں۔
پری کو دشمن سمجھنے لگیں اور اسی وجہ سے اماں سے بھی دور ہو گئیں کہ وہ پری سے پیار کرتی تھیں ،میرے دل میں جھانکنے کی تم نے کبھی زحمت ہی نہیں کی اور طلاق ہونے کے بعد بھی اس کو مجھ سے جوڑے رکھا ،خود کبھی اس کی جگہ لینے کی جستجو نہیں کی ایک عورت کا دکھ دوسری عورت بھلاتی ہے۔ ایک عورت کی جگہ دوسری عورت ہی پر کرتی ہے۔“
”سارا الزام آپ مجھے ہی کیوں دے رہے ہیں فیاض! آپ نے کبھی کوشش کی مجھے مسیحا بنانے کی ،میری ہر حرکت آپ کیلئے ناپسندیدہ تھی ،میرا بننا سنورنا بولنا ،چلنا پھرنا کچھ بھی تو آپ کو پسند نہ تھا باہر اپنے ساتھ لے جانا پسند نہیں کرتے تھے۔
”کیا فضول بحث لے کر بیٹھ گئی ہو اس وقت تم۔“ وہ اکتائے ہوئے لہجے میں کہتے ہوئے لیٹ گئے تھے۔
”فیاض…“ وہ ان کے قدموں کے پاس بیٹھ کر پست لہجے میں بولیں۔
”میں بہت شرمندہ ہوں اپنی کوتاہیوں پر مجھے نہیں معلوم تھا آپ کو پانے کے چکر میں الٹا آپ کو کھو رہی ہوں۔“
”اوکے چلو آ کر سو جاؤ ،رات گہری ہو رہی ہے۔“ انہوں نے نرم لہجے میں کروٹ بدل کر کہا تھا۔
”میری اتنی بڑی زیادتیوں کو آپ نے اتنی جلدی معاف کر دیا؟“
”صباحت معاف کرنا سیکھو ،جب کسی کو معاف کرتے ہیں تو ہمارے اندر ایسا سکون اترتا ہے کہ ہم تمام تکالیف و دکھوں کو بھول کر ایک خوبصورت جہاں کی سیر کرتے ہیں۔“
###
”اوہ توبہ ،اب ایسا بھی کیا اعتراض کرنا ،تم گھبرانا چھوڑ دو گی ،طغرل بھائی تمہیں چھیڑنا چھوڑ دیں گے ،وہ یہ ساری حرکتیں تمہیں چڑانے کی خاطر ہی کرتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں ہے۔
”تم یہ اتنی سی باتیں کہہ رہی ہو حد ہوتی ہے بھئی ،بے شرمی و ڈھیٹ پن کی بھی ،مجھے وہ سب پسند نہیں ہے۔“
”اوفوہ… چھوڑو بھی اب ،تم کہہ رہی تھیں انہوں نے میسج بھیجا تھا ،معافی کا پھر کیوں بھڑک رہی ہو۔ ایک خوشخبری سنو ،فاخر آ گئے ہیں مجھے لینے کیلئے ،میں اسی ہفتے چلی جاؤں گی۔“
”اورئیلی مگر وہ ان کی شادی…“
”وہ شادی نہیں ہوئی تھی۔“ اس نے ساری بات بتاتے ہوئے کہا۔
”ارے یہ تو بہت اچھی خبر ہے آؤ دادی کو سناتے ہیں۔“ وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی تھی۔
”ایک بات ہے پری! منگنی کے بعد تم میں بہت چینج آیا ہے ،ہنسنا مسکرانا سیکھ گئی ہو اور اچھی بھی لگتی ہو۔“

   1
0 Comments